عالم کون و مکاں نام ہے ویرانے کا
پاس وحشت نہیں گھر دور ہے دیوانے کا
زہر واعظ کے لئے نام ہے پیمانے کا
یہ بھی کیا مرد خدا چور ہے مے خانے کا
کبھی فرصت ہو مصیبت سے تو اٹھ کر دیکھوں
کون سے گوشے میں آرام ہے کاشانے کا
بے خود شوق ہوں آتا ہے خدا یاد مجھے
راستہ بھول کے بیٹھا ہوں صنم خانے کا
دل کی جولاں گہہ وحشت ہے ابد سے موسوم
نام ازل ہے مرے بھولے ہوئے افسانے کا
دل جو اپنا بھی ہے ناطقؔ تو یہ اپنا نہیں کچھ
ہے جو اپنا بھی تو ہوگا کسی بیگانے کا
غزل
عالم کون و مکاں نام ہے ویرانے کا
ناطق گلاوٹھی