آخری وقت ہے آخری سانس ہے زندگی کی ہے شام آخری آخری
سنگ دل آ بھی جا اب خدا کے لیے لب پہ ہے تیرا نام آخری آخری
کچھ تو آسان ہوگا عدم کا سفر ان سے کہنا تمہیں ڈھونڈھتی ہے نظر
نامہ بر تو خدارا نہ اب دیر کر دے دے ان کو پیام آخری آخری
توبہ کرتا ہوں کل سے پیوں گا نہیں مے کشی کے سہارے جیوں گا نہیں
میری توبہ سے پہلے مگر ساقیا صرف دے ایک جام آخری آخری
مجھ کو یاروں نے نہلا کے کفنا دیا دو گھڑی بھی نہ بیتی کہ دفنا دیا
کون کرتا ہے غم ٹوٹتے ہی یہ دم کر دیا انتظام آخری آخری
جیتے جی قدر میری کسی نے نہ کی زندگی بھی مری بے وفا ہو گئی
دنیا والو مبارک یہ دنیا تمہیں کر چلے ہم سلام آخری آخری
غزل
آخری وقت ہے آخری سانس ہے زندگی کی ہے شام آخری آخری
شکیل بدایونی