آخری معرکہ اب شہر دھواں دھار میں ہے
میرے سرہانے کا پتھر اسی دیوار میں ہے
اب ہمیں پچھلے حوالہ نہیں دینا پڑتے
اک یہی فائدہ بگڑے ہوئے کردار میں ہے
بیشتر لوگ جسے عمر رواں کہتے ہیں
وہ تو اک شام ہے اور کوچۂ دل دار میں ہے
یہ بھی ممکن ہے کہ لہجہ ہی سلامت نہ رہے
مجلس شہر بھی اب شہر کے بازار میں ہے
دل کہاں اپنی ریاست سے الگ جاتا ہے
وہ تو اب بھی اسی اجڑے ہوئے دربار میں ہے
غزل
آخری معرکہ اب شہر دھواں دھار میں ہے
احمد کمال پروازی