EN हिंदी
آخری ہچکی پہ ہے نشے کی ساغر جاگا | شیح شیری
aaKHiri hichki pe hai nashshe ki saghar jaga

غزل

آخری ہچکی پہ ہے نشے کی ساغر جاگا

محمد صدیق صائب ٹونکی

;

آخری ہچکی پہ ہے نشے کی ساغر جاگا
پیاس کو نیند جب آئی تو سمندر جاگا

رات بھی دن کی طرح میری پریشاں گزری
میں نہ جاگا تو مرے خواب کا پیکر جاگا

ایک آہٹ سی اچانک ہوئی دل کو محسوس
کسی دیرینہ تمنا کا مقدر جاگا

صبح ہوتے ہی خدا جانے چلا جائے کدھر
رات بھر شاخ پہ اس غم میں گل تر جاگا

تھرتھرانے لگے کیوں شیش محل آپ سے آپ
کیا کسی ٹوٹے مکاں کا کوئی پتھر جاگا

لوٹ آئے وہی آوارہ و گم گشتہ خیال
آنکھ کھلتے ہی نظاروں کا سمندر جاگا

چھوڑ آیا تھا جو میں پچھلے جنم میں صائبؔ
ذہن میں آج ان ارمانوں کا لشکر جاگا