آخری ہچکی پہ ہے نشے کی ساغر جاگا
پیاس کو نیند جب آئی تو سمندر جاگا
رات بھی دن کی طرح میری پریشاں گزری
میں نہ جاگا تو مرے خواب کا پیکر جاگا
ایک آہٹ سی اچانک ہوئی دل کو محسوس
کسی دیرینہ تمنا کا مقدر جاگا
صبح ہوتے ہی خدا جانے چلا جائے کدھر
رات بھر شاخ پہ اس غم میں گل تر جاگا
تھرتھرانے لگے کیوں شیش محل آپ سے آپ
کیا کسی ٹوٹے مکاں کا کوئی پتھر جاگا
لوٹ آئے وہی آوارہ و گم گشتہ خیال
آنکھ کھلتے ہی نظاروں کا سمندر جاگا
چھوڑ آیا تھا جو میں پچھلے جنم میں صائبؔ
ذہن میں آج ان ارمانوں کا لشکر جاگا

غزل
آخری ہچکی پہ ہے نشے کی ساغر جاگا
محمد صدیق صائب ٹونکی