آخری گاڑی گزرنے کی صدا بھی آ گئی 
سو رہو بے خواب آنکھو! رات آدھی آ گئی 
زندگی سے سیکھ لیں ہم نے بھی دنیا داریاں 
رفتہ رفتہ تم میں بھی موقع پرستی آ گئی 
سادہ لوحی دین جو قصبے کی تھی رخصت ہوئی 
شہر آنا تھا کہ اس میں ہوشیاری آ گئی 
ہم ملے تھے جانے کیا آفت زدہ روحیں لیے 
گفتگو اوروں کی تھی آپس میں تلخی آ گئی 
اپنے ہی گاؤں کی سرحد پر پہنچ کر آج ہم 
پوچھتے ہیں ہم سفر! یہ کون بستی آ گئی 
اب نہ ذوق رہ نوردی ہے نہ لطف ماندگی 
ایسا لگتا ہے کہ منزل پر سواری آ گئی 
ترک کیوں کرتے نہیں ہو کاروبار آرزو 
خانقاہیؔ اب تو بالوں میں سفیدی آ گئی
 
        غزل
آخری گاڑی گزرنے کی صدا بھی آ گئی
نشتر خانقاہی

