آخر تمہارے عشق میں برباد ہو سکے
گزرے کہاں کہاں سے تو شہزاد ہو سکے
بستی کو اپنی چھوڑ کے آیا ہے اک فقیر
خواہش کہ تیرے جسم میں آباد ہو سکے
مدت سے اپنی یاد بھی آتی نہیں ہمیں
تم جس کو یاد ہو اسے کیا یاد ہو سکے
ہونٹوں پہ ہونٹ رکھ دے کہ میں راکھ ہو سکوں
میری نئے سرے سے پھر ایجاد ہو سکے
پر پھڑپھڑا رہا ہے پرندہ بدن میں قید
اس پنجرے کو کھول کہ آزاد ہو سکے
فہرست لے کے آئے ہیں عاشق ترے سبھی
اے کاش میرے نام پہ ہی صاد ہو سکے

غزل
آخر تمہارے عشق میں برباد ہو سکے
شہزاد رضا لمس