آخر سخن تمام کیا اس دعا کے ساتھ
رہنا گلوں کے بیچ مہکنا ہوا کے ساتھ
اک بے کنار ہجر مری روح میں مقیم
اک بے پناہ خوف مری التجا کے ساتھ
اک بے یقین رات مری رات کی شریک
اک بے دیار شام دل نارسا کے ساتھ
اک برگ خشک شاخ سے گرنے کا منتظر
اور میرا جسم کانپ رہا ہے ہوا کے ساتھ
صحرا میں کھینچتی ہے مجھے خواہش قرار
صحرا کو کھینچتا ہوں میں زنجیر پا کے ساتھ
آنکھوں میں میری رنگ کے دریا اتار کر
چہرے کو اس نے پھیر لیا کس ادا کے ساتھ
دل کی گرہ کشائی فقط شرط ہے رضیؔ
کھل جائے گا وہ جسم تو بند قبا کے ساتھ
غزل
آخر سخن تمام کیا اس دعا کے ساتھ
خواجہ رضی حیدر