EN हिंदी
آخر کو راہ عشق میں ہم سر کے بل گئے | شیح شیری
aaKHir ko rah-e-ishq mein hum sar ke bal gae

غزل

آخر کو راہ عشق میں ہم سر کے بل گئے

منیرؔ  شکوہ آبادی

;

آخر کو راہ عشق میں ہم سر کے بل گئے
مشکل میں ہاتھ پاؤں ہمارے نکل گئے

کس کس کو یاد کر کے کوئی روئے اے فلک
آنکھوں کے آگے لاکھ زمانے بدل گئے

عشاق لکھنؤ کی کشش دیکھ اے مسیح
لندن کے خوب رو بھی فرنگی محل گئے

اپنا سراغ پوچھتے پھرتے ہیں موت سے
آفت زدوں کے ہجر میں نقشے بدل گئے

بدلو ردیف اور پڑھو شعر اے منیرؔ
کیا فائدہ جو اس کے قوافی بدل گئے