EN हिंदी
آخر خود اپنے ہی لہو میں ڈوب کے صرف وغا ہو گے | شیح شیری
aaKHir KHud apne hi lahu mein Dub ke sarf-e-wigha hoge

غزل

آخر خود اپنے ہی لہو میں ڈوب کے صرف وغا ہو گے

توصیف تبسم

;

آخر خود اپنے ہی لہو میں ڈوب کے صرف وغا ہو گے
قدم قدم پر جنگ لڑی ہے کہاں کہاں برپا ہو گے

حال کا لمحہ پتھر ٹھہرا یوں بھی کہاں گزرتا ہے
ہاتھ ملا کر جانے والو دل سے کہاں جدا ہو گے

موجوں پر لہراتے تنکو چلو نہ یوں اترا کے چلو
اور ذرا یہ دریا اترا تم بھی لب دریا ہو گے

سوچو کھوج ملا ہے کس کو راہ بدلتے تاروں کا
اس وحشت میں چلتے چلتے آپ ستارہ سا ہو گے

سینے پر جب حرف تمنا درد کی صورت اترے گا
خودی آنکھ سے ٹپکو گے اور خود ہی دست دعا ہو گے

سوکھے پیڑوں کی سب لاشیں غرق کف سیلاب میں ہیں
قحط آب سے مرتے لوگو بولو اب کیا چاہو گے

بات یہ ہے اس باغ میں پھول سے پتا ہونا اچھا ہے
رنگ اور خوشبو بانٹو گے تو پہلے رزق ہوا ہو گے

اے میرے نا گفتہ شعرو یہ تو بتاؤ میرے بعد
کون سے دل میں قرار کرو گے کس کے لب سے ادا ہو گے