EN हिंदी
آخر اک دن سب کو مرنا ہوتا ہے | شیح شیری
aaKHir ek din sab ko marna hota hai

غزل

آخر اک دن سب کو مرنا ہوتا ہے

عمران عامی

;

آخر اک دن سب کو مرنا ہوتا ہے
یعنی مصرع پورا کرنا ہوتا ہے

میں دریا کی گہرائی تک جاتا ہوں
میں نے کون سا پار اترنا ہوتا ہے

اپنے آنسو آپ ہی رونا ہوتے ہیں
اپنا گھاؤ آپ ہی بھرنا ہوتا ہے

اس صحرا کو پنچھی پوجنے آتے ہیں
جس صحرا کے دل میں جھرنا ہوتا ہے

ہم تو زمیں پر رینگنے والے کیڑے ہیں
ہم نے کب ہجرت سے ڈرنا ہوتا ہے

اڑنے والے کیسے بھول گئے عامیؔ
پاؤں آخر خاک پہ دھرنا ہوتا ہے