EN हिंदी
آخر غم جاناں کو اے دل بڑھ کر غم دوراں ہونا تھا | شیح شیری
aaKHir gham-e-jaanan ko ai dil baDh kar gham-e-dauran hona tha

غزل

آخر غم جاناں کو اے دل بڑھ کر غم دوراں ہونا تھا

مجروح سلطانپوری

;

آخر غم جاناں کو اے دل بڑھ کر غم دوراں ہونا تھا
اس قطرے کو بننا تھا دریا اس موج کو طوفاں ہونا تھا

ہر موڑ پہ مل جاتے ہیں ابھی فردوس و جناں کے شیدائی
تجھ کو تو ابھی کچھ اور حسیں اے عالم امکاں ہونا تھا

وہ جس کے گداز محنت سے پر نور شبستاں ہے تیرا
اے شوخ اسی بازو پہ تری زلفوں کو پریشاں ہونا تھا

آتی ہی رہی ہے گلشن میں اب کے بھی بہار آئی ہے تو کیا
ہے یوں کہ قفس کے گوشوں سے اعلان بہاراں ہونا تھا

آیا ہے ہمارے ملک میں بھی اک دور زلیخائی یعنی
اب وہ غم زنداں دیتے ہیں جن کو غم زنداں ہونا تھا

اب کھل کے کہوں گا ہر غم دل مجروحؔ نہیں وہ وقت کہ جب
اشکوں میں سنانا تھا مجھ کو آہوں میں غزل خواں ہونا تھا