آخر ایک دن شاد کرو گے
میرا گھر آباد کرو گے
پیار کی باتیں وصل کی راتیں
یاد کرو گے یاد کرو گے
کس دل سے آباد کیا تھا
کس دل سے برباد کرو گے
میں نے اپنی قیمت کہہ دی
تم بھی کچھ ارشاد کرو گے
زر کے بندو عقل کے اندھو
تم کیا مجھ کو شاد کرو گے
جب مجھ کو چپ لگ جائے گی
پھر تم بھی فریاد کرو گے
اور تمہیں آتا ہی کیا ہے
کوئی ستم ایجاد کرو گے
تنگ آ کر اے بندہ پرور
بندے کو آزاد کرو گے
میرے دل میں بسنے والو
تم مجھ کو برباد کرو گے
حسن کو رسوا کر کے مروں گا
آخر تم کیا یاد کرو گے
حشر کے دن امید ہے ناصح
تم میری امداد کرو گے
غزل
آخر ایک دن شاد کرو گے
حفیظ جالندھری