EN हिंदी
آخر شب بھی کسی خواب کی امید میں ہوں | شیح شیری
aaKHir-e-shab bhi kisi KHwab ki ummid mein hun

غزل

آخر شب بھی کسی خواب کی امید میں ہوں

اسحاق اطہر صدیقی

;

آخر شب بھی کسی خواب کی امید میں ہوں
اک نئی صبح نئے دن نئے خورشید میں ہوں

مجھ سے وہ کیسے کرے حرف و حکایت آغاز
میں ابھی سلسلۂ حرف کی تمہید میں ہوں

مجھ میں بھی فقر کی ہلکی سی جھلک ملتی ہے
ہے مجھے فخر کہ اک صورت تقلید میں ہوں

میں نے دیکھا ہے اسے یا نہیں دیکھا اس کو
میں ابھی تک تو اسی کشمکش دید میں ہوں

میری ہر سانس ہے اثبات و نفی کی تکرار
مجھ کو کیا علم کہ کب حالت تردید میں ہوں

سر کشیدہ ہوں تو کیا مد مقابل ہوں تو کیا
میرے قاتل میں تری تیغ کی تائید میں ہوں

خشک شاخوں میں ابھی ذوق نمو باقی ہے
میں نئی رت سے پھر اک عہد کی تجدید میں ہوں