EN हिंदी
آخر کار یہی عذر جفا کا نکلا | شیح شیری
aaKHir-e-kar yahi uzr jafa ka nikla

غزل

آخر کار یہی عذر جفا کا نکلا

اثر لکھنوی

;

آخر کار یہی عذر جفا کا نکلا
جرم اور جرم بھی اک عمر وفا کا نکلا

اوس میں ڈوب کے جس طرح نکھرتا ہے گلاب
شرم سے اور سوا حسن ادا کا نکلا

کیا کری ہے کہ جب در پہ ترے آ بیٹھا
آستیں سے نہ کبھی ہاتھ گدا کا نکلا

جو دعا مانگی ہے اوروں ہی کی خاطر مانگی
حوصلہ آج مرے دست دعا کا نکلا

شوق منزل ہی لیے اٹھ گئے جانے والے
آشنا ایک نہ آواز درا کا نکلا

جب تو ہی تو ہے تو پھر غیب و حضوری کیسی
ایک ہی رنگ بقا اور فنا کا نکلا