آخر کار یہی عذر جفا کا نکلا
جرم اور جرم بھی اک عمر وفا کا نکلا
اوس میں ڈوب کے جس طرح نکھرتا ہے گلاب
شرم سے اور سوا حسن ادا کا نکلا
کیا کری ہے کہ جب در پہ ترے آ بیٹھا
آستیں سے نہ کبھی ہاتھ گدا کا نکلا
جو دعا مانگی ہے اوروں ہی کی خاطر مانگی
حوصلہ آج مرے دست دعا کا نکلا
شوق منزل ہی لیے اٹھ گئے جانے والے
آشنا ایک نہ آواز درا کا نکلا
جب تو ہی تو ہے تو پھر غیب و حضوری کیسی
ایک ہی رنگ بقا اور فنا کا نکلا
غزل
آخر کار یہی عذر جفا کا نکلا
اثر لکھنوی