آخر چراغ درد محبت بجھا دیا
سر سے کسی کی یاد کا پتھر گرا دیا
ڈھونڈے جنم جنم بھی تو دنیا نہ پا سکے
یوں ہم نے اس کو اپنی غزل میں چھپا دیا
خوشبو سے اس کی جسم کی آنگن مہک اٹھا
کمرے کو اس نے اپنی ہنسی سے سجا دیا
یہ کس کے انتظار میں جھپکی نہیں پلک
یہ کس نے مجھ کو راہ کا پتھر بنا دیا
کیا کم ہے جعفریؔ کہ مشینوں کے شور نے
لوگوں کو اپنے آپ سے ملنا سکھا دیا
غزل
آخر چراغ درد محبت بجھا دیا
فضیل جعفری