EN हिंदी
آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا | شیح شیری
aaKHir aaKHir ek gham hi aashna rah jaega

غزل

آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا

محشر بدایونی

;

آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا
اور وہ غم بھی مجھ کو اک دن دیکھتا رہ جائے گا

سوچتا ہوں اشک حسرت ہی کروں نذر بہار
پھر خیال آتا ہے میرے پاس کیا رہ جائے گا

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

آج اگر گھر میں یہی رنگ شب عشرت رہا
لوگ سو جائیں گے دروازہ کھلا رہ جائے گا

تا حد منزل توازن چاہئے رفتار میں
جو مسافر تیز تر آگے بڑھا رہ جائے گا

گھر کبھی اجڑا نہیں یہ گھر کا شجرہ ہے گواہ
ہم گئے تو آ کے کوئی دوسرا رہ جائے گا

روشنی محشرؔ رہے گی روشنی اپنی جگہ
میں گزر جاؤں گا میرا نقش پا رہ جائے گا