عاجز تھا بے عجز نبھائی رسم جدائی میں نے بھی
اس نے مجھ سے ہاتھ چھڑایا جان چھڑائی میں نے بھی
جنگل کے جل جانے کا افسوس ہے لیکن کیا کرنا
اس نے میرے پر گرائے آگ لگائی میں نے بھی
اس نے اپنے بکھرے گھر کو پھر سے سمیٹا ٹھیک کیا
اپنے بام و در پہ بیٹھی گرد اڑائی میں نے بھی
نوحہ گران یار میں یاروں میرا نام بھی لکھ دینا
اس کے ساتھ بہت دن کی ہے نغمہ سرائی میں نے بھی
ایک دیا تو مرقد پر بھی جلتا ہے عاصمؔ آخر
دنیا آس پہ قائم تھی سو آس لگائی میں نے بھی
غزل
عاجز تھا بے عجز نبھائی رسم جدائی میں نے بھی
لیاقت علی عاصم