آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے
راگ ہے مے ہے چمن ہے دل ربا ہے دید ہے
دل دوانہ ہو گیا ہے دیکھ یہ صبح بہار
رسمسا پھولوں بسا آیا انکھوں میں نیند ہے
شیر عاشق آج کے دن کیوں رقیباں پے نہ ہوں
یار پایا ہے بغل میں خانۂ خورشید ہے
غم کے پیچھو راست کہتے ہیں کہ شادی ہووے ہے
حضرت رمضاں گئے تشریف لے اب عید ہے
عید کے دن رووتا ہے ہجر سیں رمضان کے
بے نصیب اس شیخ کی دیکھو عجب فہمید ہے
سلک اس کی نظم کا کیوں کر نہ ہووے قیمتی
آبروؔ کا شعر جو دیکھا سو مروارید ہے
غزل
آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے
آبرو شاہ مبارک