آج وہ پھول بنا حسن دل آرا دیکھا
سچ ہوا پچھلے برس جو بھی کہا تھا دیکھا
دھیان میں لائے تصور میں بسایا دیکھا
اتنا ہی اجنبی پایا اسے جتنا دیکھا
کس وسیلے سے بھلا عرض تمنا کرتے
ہم نے جس وقت بھی دیکھا اسے تنہا دیکھا
کب سے احساس پہ اک بوجھ لیے پھرتے ہیں
کاش پوچھو کہ بھری بزم میں کیا کیا دیکھا
شاہراہوں کے گھنے پیڑ کٹے ہیں جب سے
چونک اٹھے ہیں جہاں اپنا بھی سایا دیکھا
دفعتاً آ گیا پھر ڈوبتے سورج کا خیال
شام کے وقت جو دریا کا کنارا دیکھا
غزل
آج وہ پھول بنا حسن دل آرا دیکھا
امین راحت چغتائی