EN हिंदी
آج تو اس نے یوں دیکھا ہے | شیح شیری
aaj to usne yun dekha hai

غزل

آج تو اس نے یوں دیکھا ہے

مہیش چندر نقش

;

آج تو اس نے یوں دیکھا ہے
جیسے مجھ کو بھول گیا ہے

کلیاں کھل کر پھول بنی ہیں
کس کا آنچل لہرایا ہے

ان کو اب میرے غم کا
شاید کچھ احساس ہوا ہے

سامنے ان کے کھویا کھویا
سوچ رہا ہوں کیا کہنا ہے

رخ پہ بہاریں جھوم رہی ہیں
آنکھ میں نشہ ڈول رہا ہے

ارمانوں کے خون سے میں نے
مانگ میں تیری رنگ بھرا ہے

نقشؔ غزل یہ کس نے چھیڑی
ذرہ ذرہ جھوم رہا ہے