آج تو اس نے یوں دیکھا ہے
جیسے مجھ کو بھول گیا ہے
کلیاں کھل کر پھول بنی ہیں
کس کا آنچل لہرایا ہے
ان کو اب میرے غم کا
شاید کچھ احساس ہوا ہے
سامنے ان کے کھویا کھویا
سوچ رہا ہوں کیا کہنا ہے
رخ پہ بہاریں جھوم رہی ہیں
آنکھ میں نشہ ڈول رہا ہے
ارمانوں کے خون سے میں نے
مانگ میں تیری رنگ بھرا ہے
نقشؔ غزل یہ کس نے چھیڑی
ذرہ ذرہ جھوم رہا ہے
غزل
آج تو اس نے یوں دیکھا ہے
مہیش چندر نقش