آج تو نہیں ملتا اور چھور دریا کا
تو بھی آ کے ساحل پر دیکھ زور دریا کا
میرا شور غرقابی ختم ہو گیا آخر
اور رہ گیا باقی صرف شور دریا کا
میرے جرم سادہ پر تشنگی بھی ہنستی ہے
ایک گھونٹ پانی پر میں ہوں چور دریا کا
مور اور بھنور دونوں محو رقص رہتے ہیں
یہ بھنور ہے جنگل کا وہ ہے مور دریا کا
غزل
آج تو نہیں ملتا اور چھور دریا کا
سلیم احمد