آج تک دامن نہ بھیگا تھا بھگونا پڑ گیا
کس نے کس کا ساتھ چھوڑا ہے کہ رونا پڑ گیا
درد کا ہر ایک کے احساس کانٹا ہی سہی
یہ وہ کانٹا ہے جسے دل میں چبھونا پڑ گیا
ہاتھ جب آئی نہیں منزل تو جی گھبرا اٹھا
اور کچھ بھٹکے ہوؤں کے ساتھ ہونا پڑ گیا
روشنی کچھ یوں گھٹی تنہائی کچھ ایسی بڑھی
اپنے سائے کو بھی تاریکی میں رونا پڑ گیا
سہتے سہتے غم پہ غم عادی غموں کے ہو گئے
کروٹوں پر کروٹیں بدلیں تو سونا پڑ گیا
سنتے تھے محشرؔ کبھی پتھر بھی ہو جاتا ہے موم
آج وہ آئے تو پلکوں کو بھگونا پڑ گیا
غزل
آج تک دامن نہ بھیگا تھا بھگونا پڑ گیا
محشر عنایتی