آج تک بہکا نہیں باہر سے دیوانہ ترا
حوصلے میری نگاہوں کے ہیں پیمانہ ترا
رات بھر شبنم کی آنکھوں سے سحر کی مانگ میں
میں جسے لکھتا رہا وہ بھی تھا افسانہ ترا
یہ ترے دریا سلامت یہ ترے بادل بخیر
لٹ رہے ہیں خم پہ خم ثابت ہے مے خانہ ترا
آنسوؤں کی آب جو حائل ہے ورنہ لاؤں میں
میری نظروں کا شرر آنکھوں کا خس خانہ ترا
دل میں دھڑکن کی طرح سانسوں میں خوشبو کی طرح
اب خیالوں میں بھی کب آتا ہے وہ آنا ترا
اول اول تو تمازت دوپہر کے دشت کی
آخر آخر اپنی نظروں کو جھکا جانا ترا
ریزہ ریزہ کر گئی پتھر کو بھی شبنم کی چوٹ
ہائے کس دل سے مگر وہ مجھ کو سمجھانا ترا
غزل
آج تک بہکا نہیں باہر سے دیوانہ ترا
لطف الرحمن