آج شاید زندگی کا فلسفہ سمجھا ہوں میں
ہوں ضرورت زندگی کی اس لئے زندہ ہوں میں
ہے مری تخلیق میں عنصر بغاوت کا کوئی
جس جگہ پابندیاں تھیں اس جگہ پہنچا ہوں میں
اک عجب سا ہے تعلق اس کے میرے درمیاں
ایسا لگتا ہے کہ اس کی ذات کا حصہ ہوں میں
ہیں نمایاں جس کے چہرے پر حقیقت کے نقوش
تیرے شہر خواب میں وہ آدمی تنہا ہوں میں
چھا گیا ہوں خوف بن کر اپنے ہی اعصاب پر
اور کبھی بے خوف ہو کر خوف سے نکلا ہوں میں
ہیں زمیں پر ہر طرف میرے ہی قدموں کے نشاں
روز اول سے ہی سالمؔ کوئی آوارہ ہوں میں
غزل
آج شاید زندگی کا فلسفہ سمجھا ہوں میں
سالم شجاع انصاری