EN हिंदी
آج پھر ساقیٔ گلفام سے باتیں ہوں گی | شیح شیری
aaj phir saqi-e-gulfam se baaten hongi

غزل

آج پھر ساقیٔ گلفام سے باتیں ہوں گی

رگھوناتھ سہائے

;

آج پھر ساقیٔ گلفام سے باتیں ہوں گی
مے گساروں کی مئے و جام سے باتیں ہوں گی

پھر ترے عارض و گیسو کے نظارے ہوں گے
پھر نئی صبح نئی شام سے باتیں ہوں گی

ہو چکیں عیش و مسرت سے بہت کچھ باتیں
ہوں گی اب تو غم و آلام سے باتیں ہوں گی

عمر بھر کھائیں گے ہم وعدۂ فردا کا فریب
عمر بھر حسرت ناکام سے باتیں ہوں گی

ہوگی خلوت میں بھی حائل نہ خموشی مجھ کو
نقش دیوار و در و بام سے باتیں ہوں گی

گردش جام سے لب ہوں گے مرے محو کلام
جب مری گردش ایام سے باتیں ہوں گی

مرغ دل ذوق اسیری پہ ہے مائل امیدؔ
کس کی زلفوں کے حسیں دام سے باتیں ہوں گی