آج پھر روبرو کرو گے تم
مجھ سے کیا گفتگو کرو گے تم
مجھ سے لو گے مرے لہو قصاص
پھر مجھے سرخ رو کرو گے تم
حیف ہو میری بد مزاجی پر
آپ اپنا لہو کرو گے تم
تم گنوا دو گے ایک دن مجھ کو
پھر مری جستجو کرو گے تم
تم صف دوستاں میں ہو لیکن
پھر بھی کار عدو کرو گے تم
زخم پر زخم کھائے جاتے ہو
اور رفو پر رفو کرو گے تم
ہم بھی مقتل میں سر کٹائیں گے
اپنے خوں سے وضو کرو گے تم
اے مری جان عیب ہے یہ بھی
ہم کو میں تم کو تو کرو گے تم
میں تو شاہدؔ بھی ہوں کمالؔ بھی ہوں
میرے حق میں غلو کرو گے تم

غزل
آج پھر روبرو کرو گے تم
شاہد کمال