آج پھر دشت کوئی آبلہ پا مانگے ہے
خار بھی تازگئ رنگ حنا مانگے ہے
ضبط غم دسترس آہ رسا مانگے ہے
یہ اندھیرا ترے عارض کی ضیا مانگے ہے
جاں دہی تشنہ لبی آبلہ پائی بے سود
دشت غربت تو کچھ اس کے بھی سوا مانگے ہے
پھنک رہا ہے غم ہستی سے وجود انساں
زندگی اب ترے دامن کی ہوا مانگے ہے
آپ چپکے سے اسے زہر کا پیالہ دے دیں
جو روایت سے بغاوت کا صلہ مانگے ہے
چاند سینے سے لگائے ہے مرا نقش قدم
اور سورج مری سانسوں کی صدا مانگے ہے
غزل
آج پھر دشت کوئی آبلہ پا مانگے ہے
بختیار ضیا