آج مقابلہ ہے سخت میر سپاہ کے لیے
ہو گئے سر کئی قلم ایک کلاہ کے لیے
تازہ رخیٔ کائنات ڈھونڈ رہی ہے آئنہ
جستجو ہے ہزار میں ایک گواہ کے لیے
کھل ہی گیا طلسم دوست عین وصال میں کہ تھی
اک شب ہجر زندگی لذت آہ کے لیے
اک شب خود نمائی میں عصمت بے مقام نے
کتنے سوال کر لیے رمز گناہ کے لیے
صورت گرد کارواں ہے غم منزل جہاں
خواب جنون تازہ کار چاہئے راہ کے لیے
آتش کیمیا گراں کام نہ آ سکی کوئی
سرمہ ہے خاک دل مری چشم سیاہ کے لیے
میری خود آگہی بھی کہ تیرے وصال نے طلب
ہجر ہزار شب کے بعد ایک گناہ کے لیے
غزل
آج مقابلہ ہے سخت میر سپاہ کے لیے
عزیز حامد مدنی