آج مہندی لگائے بیٹھے ہیں
خوب وہ رنگ لائے بیٹھے ہیں
میرے آتے ہی ہو گئے برہم
کچھ کسی کے سکھائے بیٹھے ہیں
تیغ کھینچی ہے قتل پر میرے
ہاتھ مجھ سے اٹھائے بیٹھے ہیں
میں شکایت جفا کی کرتا ہوں
چپکے وہ سر جھکائے بیٹھے ہیں
دم چرائے ہوئے پڑے ہیں ہم
وہ جو بالیں پہ آئے بیٹھے ہیں
امتحاں کو کہا تو بولے وہ
ہم تمہیں آزمائے بیٹھے ہیں
کس کو نظروں سے آج اتاریں گے
کیوں وہ تیوری چڑھائے بیٹھے ہیں
دیکھیے کب وہ شمع رو آئے
شام سے لو لگائے بیٹھے ہیں
ٹالنا وصل کا جو ہے منظور
خود سے خود منہ تھوتھائے بیٹھے ہیں
سادہ پن میں ہزار جوبن ہے
بال کھولے نہائے بیٹھے ہیں
کون پہلو سے اٹھ گیا انجمؔ
آپ کیوں دل دبائے بیٹھے ہیں
غزل
آج مہندی لگائے بیٹھے ہیں
مرزا آسمان جاہ انجم