آج میں نے اسے نزدیک سے جا دیکھا ہے
وہ دریچہ تو مرے قد سے بہت اونچا ہے
اپنے کمرے کو اندھیروں سے بھرا پایا ہے
تیرے بارے میں کبھی غور سے جب سوچا ہے
ہر تمنا کو روایت کی طرح توڑا ہے
تب کہیں جا کے زمانہ مجھے راس آیا ہے
تم کو شکوہ ہے مرے عہد محبت سے مگر
تم نے پانی پہ کوئی لفظ کبھی لکھا ہے
ایسا بچھڑا کہ ملا ہی نہیں پھر اس کا پتہ
ہائے وہ شخص جو اکثر مجھے یاد آتا ہے
کوئی اس شخص کو اپنا نہیں کہتا آزرؔ
اپنے گھر میں بھی وہ غیروں کی طرح رہتا ہے
غزل
آج میں نے اسے نزدیک سے جا دیکھا ہے
کفیل آزر امروہوی