آج میں نے اپنا پھر سودا کیا
اور پھر میں دور سے دیکھا کیا
زندگی بھر میرے کام آئے اصول
ایک اک کر کے انہیں بیچا کیا
بندھ گئی تھی دل میں کچھ امید سی
خیر تم نے جو کیا اچھا کیا
کچھ کمی اپنی وفاؤں میں بھی تھی
تم سے کیا کہتے کہ تم نے کیا کیا
کیا بتاؤں کون تھا جس نے مجھے
اس بھری دنیا میں ہے تنہا کیا
غزل
آج میں نے اپنا پھر سودا کیا
جاوید اختر