EN हिंदी
آج کچھ کہنے کو تھی شوخئ تدبیر مری | شیح شیری
aaj kuchh kahne ko thi shoKHi-e-tadbir meri

غزل

آج کچھ کہنے کو تھی شوخئ تدبیر مری

جامی ردولوی

;

آج کچھ کہنے کو تھی شوخئ تدبیر مری
ہنس پڑی پاس کھڑی تھی کہیں تقدیر مری

ٹوٹتے ہی سے ہوئی دل میں کشاکش پیدا
میری تخریب میں پوشیدہ تھی تعمیر مری

حریت ظلمت زنداں میں جنم لیتی ہے
انقلابات کی تاریخ ہے زنجیر مری

اپنی جانب کبھی دیکھا ہی نہیں تھا ورنہ
وسعتیں دونوں جہانوں کی ہیں جاگیر مری

دوستی کیسی رہ و رسم عمومی بھی گئی
پیار کی بات کہی آپ سے تقصیر مری

میں کہاں آپ کہاں دید کی امید کہاں
یاد آؤں جو کبھی دیکھیے تصویر مری

عبرت آموز ہے دنیا کا تغیر جامیؔ
مجھ سے ملتی نہیں دو روز کی تصویر مری