آج کس خواب کی تعبیر نظر آئی ہے
اک چھنکتی ہوئی زنجیر نظر آئی ہے
میں نے جتنے بھی سوالوں میں اسے دیکھا ہے
زندگی درد کی تصویر نظر آئی ہے
خود بھی مٹ جاؤں یہ دنیا بھی مٹاتا جاؤں
بس یہی صورت تعمیر نظر آئی ہے
رات رو رو کے گزاری ہے چراغوں کی طرح
تب کہیں حرف میں تاثیر نظر آئی ہے
بارش ہجر کے آنے کا ہی امکان نہ ہو
چشم جاناں مجھے نم گیر نظر آئی ہے
درد کو آنکھ بنایا ہے تو پھر جا کے کہیں
دل پہ لکھی ہوئی تحریر نظر نظر آئی ہے
شام ہوتی تھی سہانی پہ ترے ہجر کے بعد
آج یہ بھی مجھے دلگیر نظر آئی ہے
غزل
آج کس خواب کی تعبیر نظر آئی ہے
طارق نعیم