آج کی تنہائی سے نکلو کل کی آبادی میں آؤ
جاناں کی تربت سے اٹھو دوراں کو سینے سے لگاؤ
خوب نہیں یہ طرز تکلف آج تعارف ہو جانے دو
میں بھی اپنے سر کو جھکاؤں تم بھی اپنی تیغ اٹھاؤ
ٹیڑھی نردیں الٹے خانے مد مقابل بے اسلوب
یہ چوسر کا کھیل بھی کیا ہے چال چلو تو منہ کی کھاؤ
تم ہی قاتل تم ہی منصف پھر بھی مجھے افسوس نہیں
آخر میرے دل میں کیا ہے بوجھ سکو تو بات بتاؤ
دل کا ویرانہ بھی وہی ہے تیری تمنا بھی ہے وہی
ظلمت میں روشن ہے ستارہ صحرا میں جلتا ہے الاؤ

غزل
آج کی تنہائی سے نکلو کل کی آبادی میں آؤ
ظہیر کاشمیری