EN हिंदी
آج کی شب جیسے بھی ہو ممکن جاگتے رہنا | شیح شیری
aaj ki shab jaise bhi ho mumkin jagte rahna

غزل

آج کی شب جیسے بھی ہو ممکن جاگتے رہنا

حمایت علی شاعرؔ

;

آج کی شب جیسے بھی ہو ممکن جاگتے رہنا
کوئی نہیں ہے جان کا ضامن جاگتے رہنا

قزاقوں کے دشت میں جب تک قافلہ ٹھہرے
قافلے والو رات ہو یا دن جاگتے رہنا

تاریکی میں لپٹی ہوئی پر ہول خموشی
اس عالم میں کیا نہیں ممکن جاگتے رہنا

آہٹ آہٹ پر جانے کیوں دل دھڑکے ہے
کوئی نہیں اطراف میں لیکن جاگتے رہنا

ٹھنڈی ہواؤں کا اے دل احساں نہ اٹھانا
کوئی یہاں ہمدرد نہ محسن جاگتے رہنا

راہنما سب دوست ہیں لیکن اے ہم سفرو
دوست کا کیا ظاہر کیا باطن جاگتے رہنا

تاروں کی آنکھیں بھی بوجھل بوجھل سی ہیں
کوئی نہیں اب شاعرؔ تجھ بن جاگتے رہنا