آج جس پر یہ پردہ داری ہے
کل اسی کی تو دعوے داری ہے
آئینہ مجھ سے کہہ رہا ہے یہی
میرے چہرے پہ بے قراری ہے
آج وعدہ وہ پھر نبھائے گا
وادی و گل پہ کیا خماری ہے
تیری آنکھیں یہ صاف کہتی ہے
رات کتنی حسیں گزاری ہے

غزل
آج جس پر یہ پردہ داری ہے
وسیم اکرم