EN हिंदी
آج جی میں ہے کہ کھل کر مے پرستی کیجئے | شیح شیری
aaj ji mein hai ki khul kar mai-parasti kijiye

غزل

آج جی میں ہے کہ کھل کر مے پرستی کیجئے

قائم چاندپوری

;

آج جی میں ہے کہ کھل کر مے پرستی کیجئے
خوب سی مے پیجئے اور دیر مستی کیجئے

زہد خشک آخر کہاں تک مایۂ تر دامنی
غرق لائے مے بھی چندے رخت ہستی کیجئے

تنگ تر ہے دست حاجت سے دل ابنائے دہر
کس کے آگے ظاہر اپنی تنگ دستی کیجئے

درپئے ویرانئ دل ہے جو بستا ہے یہاں
کس طرح یارب اس اوجڑ گھر کو بستی کیجئے

لب پہ فوارے کے جاری ہے یہ مصرع دم بہ دم
دے اگر خالق بلندی میل پستی کیجئے

مفت تک دوں ہوں میں دل تس پر کوئی لیتا نہیں
ہاں مگر اس سے بھی کچھ یہ جنس سستی کیجئے

ٹک گریباں آج پھٹ کر دھجئیں ہو لے تو پھر
چاک پر سینے کے قائمؔ پیش دستی کیجئے