آج گزرے ہوئے لمحوں کو پکارا جائے
دل کو پھر خون تمنا سے سنوارا جائے
میرا ہر شوق بھی ہو ان کا ہر انداز بھی ہو
دل میں اب نقش کوئی ایسا اتارا جائے
جب تھکی ماندی پڑی سوتی ہو ہر شورش غم
ہجر کی رات کو کس طرح گزارا جائے
کچھ ہو معیار خرد چاک قبا عیب سہی
چشم معصوم کا خالی نہ اشارا جائے
آبلہ پا ہے تو کیا ہے تو وہ سرگرم سفر
قافلے والو صباؔ کو تو پکارا جائے

غزل
آج گزرے ہوئے لمحوں کو پکارا جائے
صبا جائسی