آج گم گشتہ خیالات نے چونکایا ہے
پھر کوئی دشت جنوں سے مجھے لے آیا ہے
ذہن آوارہ نے احساس کو راہیں دے کر
منزل دار و رسن تک مجھے پہنچایا ہے
خوف نے لوٹ لی ہر گام پہ نبضوں کی اساس
در بدر روح کی گلیوں میں مرا سایہ ہے
حوصلے آج بھی میراث ہیں میرے دل کے
میں نے ہر گام پہ طوفان کو پلٹایا ہے
بے خطر کون چلا جانب منزل منظرؔ
کس کا لہجہ ہے جو ماحول سے ٹکرایا ہے
غزل
آج گم گشتہ خیالات نے چونکایا ہے
جاوید منظر