EN हिंदी
آج دل بیقرار ہے کیا ہے | شیح شیری
aaj dil be-qarar hai kya hai

غزل

آج دل بیقرار ہے کیا ہے

میر حسن

;

آج دل بیقرار ہے کیا ہے
درد ہے انتظار ہے کیا ہے

جس سے جلتا ہے دل جگر وہ آہ
شعلہ ہے یا شرار ہے کیا ہے

یہ جو کھٹکے ہے دل میں کانٹا سا
مژہ ہے نوک خار ہے کیا ہے

چشم بد دور تیری آنکھوں میں
نشہ ہے یا خمار ہے کیا ہے

میرے ہی نام سے خدا جانے
ننگ ہے اس کو عار ہے کیا ہے

جس نے مارا ہے دام دل پہ مرے
خط ہے یا زلف یار ہے کیا ہے

کیوں گریبان تیرا آج حسنؔ
اس طرح تار تار ہے کیا ہے