آج دیوانے کو بے وجہ ستایا جائے
پھول تازہ کوئی بالوں میں لگایا جائے
میں سر عام پڑھوں کوئی غزل لوگوں میں
ان کی جانب ہی فقط میرا اشارہ جائے
پاس ہیں وہ دل بیمار دعا گو ہے عجب
درد جائے نہ مرا نہ ہی مسیحا جائے
فیصلہ حسب طبیعت یہ محبت نے کیا
اک طرح غم ہو سلامت غم دنیا جائے
روک لیں آج تو شاہین بلندیٔ خیال
آج سرورؔ کے پروں کو چلو کترا جائے
غزل
آج دیوانے کو بے وجہ ستایا جائے
سرور نیپالی