EN हिंदी
آج بھی تیری ہی صورت ہے مقابل میرے | شیح شیری
aaj bhi teri hi surat hai muqabil mere

غزل

آج بھی تیری ہی صورت ہے مقابل میرے

حسن اکبر کمال

;

آج بھی تیری ہی صورت ہے مقابل میرے
یہ بھی اک عشق کا انداز ہے قاتل میرے

تیرا محروم محبت ہوں سو واپس نہ گیا
بے محبت کبھی در سے کوئی سائل میرے

حسن بیمار تجھے پھول دیئے ہیں میں نے
ان میں ہونے تھے مگر زخم بھی شامل میرے

اور میں ہوں کہ سفر پھر بھی کئے جاتا ہوں
سائے کی طرح تعاقب میں ہے منزل میرے

میں سمندر کے تلاطم سے بھی کچھ سیکھتا ہوں
اسی تقصیر پہ دشمن ہوئے ساحل میرے

آج آرائشی زنجیر ہے گردن میں کمالؔ
کبھی ہتھیار گلے میں تھے حمائل میرے