EN हिंदी
آج بھی ہاتھ پہ ہے تیرے پسینے کی تری | شیح شیری
aaj bhi hath pe hai tere pasine ki tari

غزل

آج بھی ہاتھ پہ ہے تیرے پسینے کی تری

سلیمان اریب

;

آج بھی ہاتھ پہ ہے تیرے پسینے کی تری
یعنی ہے آج بھی شاخ شجر درد ہری

پاس داماں نہ سہی پاس گریباں ہی سہی
تجھ پہ لازم نہیں اے دست جنوں جامہ دری

میں کہ دنیائے‌ ہوس میں بھی سرافراز رہا
کام آ ہی گئی آخر مری آشفتہ سری

دل کی بستی سے کبھی یوں نہ گزرتی تھی صبا
اب نہ پیغامبری ہے نہ کوئی نامہ بری

ہم نے بھی چھوڑ دیا مسلک ارباب وفا
وہ بھی اب بھول گئے شیوۂ بیداد گری

رات کا کرب سمیٹے ہوئے اپنے دل میں
جھلملاتا ہے کہیں دور چراغ سحری

میں نے کس دل سے شب غم کی سحر کی ہے اریبؔ
یاد آئے گی زمانے کو مری بے جگری