آج اچانک پھر یہ کیسی خوشبو پھیلی یادوں کی
دل کو عادت چھوٹ چکی تھی مدت سے فریادوں کی
دیوانوں کا بھیس بنا لیں یا صورت شہزادوں کی
دور سے پہچانی جاتی ہے شکل ترے بربادوں کی
شرط شیریں کیا پوری ہو تیشہ و جرأت کچھ بھی نہیں
عشق و ہوس کے موڑ پہ یوں تو بھیڑ ہے اک فرہادوں کی
اب بھی ترے کوچے میں ہوائیں خاک اڑاتی پھرتی ہیں
باقی ہے یہ ایک روایت اب بھی ترے بربادوں کی
کوئی تری تصویر بنا کر لا نہ سکا خون دل سے
لگتی ہے ہر روز نمائش یوں تو نئے بہزادوں کی
غزل
آج اچانک پھر یہ کیسی خوشبو پھیلی یادوں کی
عنوان چشتی