EN हिंदी
آئیے جلوۂ دیدار کے دکھلانے کو | شیح شیری
aaiye jalwa-e-didar ke dikhlane ko

غزل

آئیے جلوۂ دیدار کے دکھلانے کو

وحید الہ آبادی

;

آئیے جلوۂ دیدار کے دکھلانے کو
پھونک دے برق تجلی مرے کاشانے کو

دیکھیے کون سی جا یار کا ملتا ہے پتہ
کوئی کعبے کو چلا ہے کوئی بت خانے کو

تیری فرقت میں تصور ہے یہ بے دردی کا
خواب ہم جانتے ہیں نیند کے آ جانے کو

بعد میرے جو ہوا دشت میں مجنوں کا گزر
رو دیا دیکھ کے خالی مرے ویرانے کو

کام آ جاتی ہے ہم بزمی بھی روشن دل کی
شمع ہم رنگ بنا لیتی ہے پروانے کو

آج پھر شہر کے کوچے نظر آتے ہیں اداس
کس طرف لے گئی وحشت ترے دیوانے کو

اے جنوں تنگ ہوئی وسعت صحرا تجھ سے
اب کہاں جائے طبیعت کوئی بہلانے کو

گل پہ بلبل تھا کہیں شمع پہ پروانہ تھا
ہم نے ہر رنگ میں دیکھا ترے پروانے کو

وا شد دل نہ ہوئی غنچۂ خاطر نہ کھلا
کون سے باغ میں آئے تھے ہوا کھانے کو

میں نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو