آئیے آسماں کی اور چلیں
ساتھ لے کر زمیں کا شور چلیں
چاند الفت کا استعارہ ہے
جس کی جانب سبھی چکور چلیں
یوں دبے پاؤں آئی تیری یاد
جیسے چپکے سے شب میں چور چلیں
دل کی دنیا عجیب دنیا ہے
عقل کے اس پہ کچھ نہ زور چلیں
سبز رت چھائی یوں ان آنکھوں کی
جس طرح ناچ ناچ مور چلیں
تم بھی یوں مجھ کو آ کے لے جاؤ
جیسے لے کر پتنگیں ڈور چلیں
غزل
آئیے آسماں کی اور چلیں
حنیف ترین