آئیے آج آپ سے کچھ راز کی باتیں کریں
اس حسیں اس کی نگاہ ناز کی باتیں کریں
وہ کہ جس نے مسکرا کے کہہ دیا تھا حال دل
اس تبسم اس حسیں انداز کی باتیں کریں
تھا وہ بچپن یا جوانی جب سنا تھا نام عشق
آج پھر ان اجنبی الفاظ کی باتیں کریں
یاد ہے اب تک ہمیں سہما سا وہ اظہار عشق
بند آنکھیں کانپتی آواز کی باتیں کریں
تھک گئے دنیا کی خاطر خود کو دے دے کر فریب
آج پھر اپنے دل ناساز کی باتیں کریں
ہے بہت مایوس یہ دل دیکھ کر انجام عشق
پھر بھی ہم اے ہم نشیں آغاز کی باتیں کریں
ہجر کی رت صحن جسم و جاں سے رخصت ہو گئی
خوش نما موسم ہے اب ہم راز کی باتیں کریں

غزل
آئیے آج آپ سے کچھ راز کی باتیں کریں
مینو بخشی