آئنوں سے پہلے بھی رسم خود نمائی تھی
دل شکار ہوتے تھے ایسی دل ربائی تھی
پھول پھول بام و در راستے ہیں گل پیکر
وہ ادھر سے گزرے تھے یا بہار آئی تھی
پاس کا مسافر کیوں اٹھ کے دور جا بیٹھا
نام پوچھ لینے میں ایسی کیا برائی تھی
کچھ شفق شفق عارض کچھ افق افق چہرے
آرزو نے بزم اپنی رات یوں سجائی تھی
کتنا محترم تھا میں بھولتا نہیں نجمیؔ
بھوک بھی مرے گھر میں سر جھکا کے آئی تھی

غزل
آئنوں سے پہلے بھی رسم خود نمائی تھی
حسن نجمی سکندرپوری