EN हिंदी
آئنے سے مکر گیا کوئی | شیح شیری
aaine se mukar gaya koi

غزل

آئنے سے مکر گیا کوئی

راشد آذر

;

آئنے سے مکر گیا کوئی
مجھ پہ الزام دھر گیا کوئی

زندگی لے تجھے مبارک ہو
جیتے جی آج مر گیا کوئی

عمر بھر جی رہا تھا مر مر کے
پھر بھی مرنے سے ڈر گیا کوئی

مانگنے کو جو ہاتھ پھیلایا
ریزہ ریزہ بکھر گیا کوئی

ساتھ تھا رنج خوش دلی آزرؔ
رات جب اپنے گھر گیا کوئی