آئنہ خانہ بھی اندوہ تمنا نکلا
غور سے دیکھا تو اپنا ہی تماشا نکلا
زندگی محفل شب کی تھی پس انداز شراب
پینے بیٹھے تو بس اک گھونٹ ذرا سا نکلا
پھر چلا موسم وحشت میں سر مقتل عشق
قرعۂ فال مرے نام دوبارہ نکلا
داد شائستگیٔ غم کی توقع بے سود
دل بھی کم بخت طرفدار اسی کا نکلا
ہے عجب طرز کا رہرو دل شوریدہ قدم
جب بھی نکلا سفر عشق پہ تنہا نکلا
وہ رقیبوں کا پتہ پوچھنے آئے مرے گھر
کوئی تو ان سے ملاقات کا رستہ نکلا
در بدر خوار ہوئے پھرتے ہیں ہم ہجر نصیب
جاں سپاری کا بھی کیا خوب نتیجہ نکلا
دل میں اٹھتے رہے یادوں کے بگولے تشنہؔ
مجھ میں سمٹا ہوا اک درد کا صحرا نکلا
غزل
آئنہ خانہ بھی اندوہ تمنا نکلا
عالم تاب تشنہ